এই সাইটটি বার পঠিত
ভাটিয়ালি | টইপত্তর | বুলবুলভাজা | হরিদাস পাল | খেরোর খাতা | বই
  • টইপত্তর  প্রবন্ধ

  • উর্দু নারীবাদী লেখাপত্র

    সৈয়দা তাহ্‌মিনা আলি
    প্রবন্ধ | ১৭ মার্চ ২০২৫ | ৩৪ বার পঠিত
  • ড. সৈয়দা শাহিন নূরের ওয়াল থেকে। 
     
    মূল প্রবন্ধ -
     
     
    **نسوانی برہنہ صدری تحریک کی جنسیانیت: ایک ذاتی نظریہ**  
    ### از: سیدہ شاہین نور  
     
    ## پیش لفظ  
    میں اپنے قلم کی نوک سے یہ اعتراف کرتی ہوں کہ جو الفاظ آج میرے لبوں سے جاری ہوں گے، وہ کئی لوگوں کے لئے ناقابل قبول ہوں گے۔ میری منشا کسی کو ناراض کرنا نہیں، بلکہ ایک ایسی گفتگو کو آغاز دینا ہے جو بہت دنوں سے میرے ذہن میں گردش کر رہی ہے۔ برہنہ صدری تحریک کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ محض سماجی آزادی کا ایک مظہر ہے یا اس کے پیچھے اور بھی گہرے، پیچیدہ، اور شاید نازک محرکات کارفرما ہیں؟  
     
    ## تمہید: برہنہ صدری تحریک میں میرا راستہ  
    ابتدا میں، جب میں نے نسوانی برہنہ صدری تحریک سے وابستگی کا فیصلہ کیا، میرے ذہن میں مساوات کا خیال تھا - وہ بنیادی حق جو مردوں کو بلا کسی رکاوٹ حاصل ہے مگر عورتوں سے دریغ کیا جاتا ہے۔ میں نے صنفی مساوات کے نام پر احتجاج میں شرکت کی، تقریریں دیں، اور تحریروں کے ذریعے اپنا پیغام پھیلایا۔ لیکن جیسے جیسے میں اس تحریک کی گہرائیوں میں اترتی گئی، مجھے احساس ہوا کہ میرے اندر کچھ اور بھی تھا - ایک خواہش، ایک جذبہ، جسے میں نے کبھی پہچاننے سے انکار کیا تھا۔  
     
    یہ اعتراف کرنا آسان نہیں، لیکن میں نے محسوس کیا کہ میرے لئے، برہنہ صدری احتجاج صرف سیاسی نہیں تھا؛ یہ انتہائی ذاتی تھا۔ میرے جسم کو کھلے عام دکھانے کا عمل، ہزاروں آنکھوں کی موجودگی میں، مجھے ایک خاص طرح کی حسی تسکین فراہم کرتا تھا۔ میں اسے 'نمائشی خواہش' کہتی ہوں - اپنے جسم کو دکھانے کی طلب، نہ صرف اپنی ذات کی توثیق کے لئے بلکہ اُس توجہ کی وجہ سے جو اس سے ملتی ہے۔  
     
    ## تجزیہ: نسوانی تحریک میں نمائشی پہلو  
    نفسیاتی منظر سے دیکھا جائے تو نمائشی خواہش ایک پیچیدہ جذبہ ہے۔ فرائڈ اسے 'نظارہ پسندی' کہتے ہیں - دیکھنے اور دکھانے کی خواہش۔ میری تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی نسوانی کارکنان کے اندر یہ خواہش چھپی ہوتی ہے، خواہ وہ اسے تسلیم کریں یا نہ کریں۔ ہمارے احتجاج، ہماری تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونا، اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنا - یہ سب ہمارے نمائشی پہلو کو تسکین دیتے ہیں۔  
     
    ایک بات واضح کر دوں: میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ہر نسوانی کارکن نمائشی پہلو رکھتی ہے۔ میں صرف اپنے تجربات کی بات کر رہی ہوں اور اُن خواتین کی جنہوں نے مجھ سے اپنے تجربات بانٹے ہیں۔ ہم میں سے کچھ کے لئے، برہنہ صدری احتجاج سیاسی اور ذاتی دونوں ہے - ہم سماجی تبدیلی چاہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ہمیں اس نمائش سے خاص لذت بھی ملتی ہے۔  
     
    ## استعاراتی تشریح: سیاسی اور جنسی آزادی کا تعلق  
    میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا ہماری جسمانی آزادی اور جنسی آزادی میں کوئی تعلق ہے؟ کیا برہنہ صدری تحریک میں شامل ہونے کا میرا فیصلہ صرف سیاسی تھا یا اس میں میری جنسی آزادی کی خواہش بھی شامل تھی؟  
     
    نسوانی نظریہ ساز آڈری لورڈ کہتی ہیں کہ "شہوانی ہماری طاقت کا گہرا سرچشمہ ہے"۔ شاید نسوانی تحریک نے جنسیت اور شہوانی کو مسترد کر کے اپنی ایک اہم طاقت سے محروم کر لیا ہے۔ ہم اپنے جسموں پر اختیار کی بات کرتے ہیں، لیکن اس اختیار میں جنسی اختیار شامل نہیں کرتے۔  
     
    میرا ماننا ہے کہ جنسیانیت کو مسترد کرنا دراصل پدرشاہی کی ہی پیروی ہے، جو عورت کی جنسیت کو ہمیشہ کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ کیا ہم اپنے جسموں کو جنسی لذت کے لئے استعمال کرنے پر فخر نہیں کر سکتے، جبکہ ساتھ ہی سماجی مساوات کے لئے بھی آواز اٹھاتے ہیں؟  
     
    ## میدانی مشاہدات: احتجاج کے اندر کی کہانی  
    میں نے کئی برہنہ صدری احتجاج کا انتظام کیا ہے، اور میرا مشاہدہ ہے کہ ان میں شرکت کرنے والی خواتین کے متعدد محرکات ہوتے ہیں۔ کچھ خواتین صرف سیاسی مقاصد کے لئے شریک ہوتی ہیں، لیکن کئی دیگر کی آنکھوں میں میں نے وہی چمک دیکھی ہے جو میرے اندر موجود ہے - نمائشی خواہش کی چمک۔  
     
    میرا ایک احتجاج ٹورنٹو میں تھا، جہاں سینکڑوں خواتین نے اپنے اوپری جسم کو برہنہ کر کے شہر کی گلیوں میں مظاہرہ کیا۔ میرے ساتھ ایک خاتون نے بعد میں اعتراف کیا: "جب میں نے اپنی قمیض اتاری، میں نے نہ صرف آزادی محسوس کی، بلکہ ایک طاقت بھی - ہر نظر میری طرف تھی، اور یہ احساس... انتہائی شور انگیز تھا۔"  
     
    یہ تجربہ ایک دوسری طرح کی طاقت کی نشاندہی کرتا ہے - دیکھے جانے کی طاقت، توجہ حاصل کرنے کی طاقت۔ ہم اس طاقت کو 'معصوم' سماجی احتجاج کے نام پر استعمال کرتے ہیں، لیکن کیا ہم اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بول رہے؟  
     
    ## مطالعہ: نمائشی خواہش اور نسوانیت کا تصادم  
    میں نے اپنی ڈاکٹریٹ کے دوران نمائشی خواہش اور اس کے نفسیاتی پہلوؤں پر تحقیق کی۔ میرے نتائج حیران کن تھے: نمائشی خواہش صرف جنسی نہیں، بلکہ ذاتی اظہار اور شناخت کا ایک طریقہ بھی ہے۔ کئی نسوانی کارکنان کے لئے، اپنے جسم کو عوامی مقامات پر دکھانا ان کی شخصیت کا ایک اہم حصہ بن جاتا ہے۔  
     
    میرا استدلال یہ ہے کہ ہمیں اس نمائشی پہلو کو قبول کرنا چاہیے، نہ کہ اسے چھپانا چاہیے۔ اگر ہم اسے قبول کریں گے تو ہم برہنہ صدری تحریک کو ایک نئی سمت دے سکتے ہیں - ایسی سمت جو جسمانی آزادی اور جنسی آزادی دونوں کو تسلیم کرتی ہے۔  
     
    ## عملی پہلو: تحریک کی جنسیانیت کو کیسے سنبھالیں  
    اب سوال یہ ہے کہ ہم اس جنسیانیت کو کیسے اپنی تحریک میں شامل کریں، بغیر اس کے کہ ہماری تحریک کی سنجیدگی متاثر ہو؟  
     
    میں تین نقاط پیش کرتی ہوں:  
    1. **صداقت**: ہمیں اپنے مختلف محرکات کے بارے میں صادق ہونا چاہیے، چاہے وہ سیاسی ہوں یا ذاتی۔  
    2. **توازن**: ہم اپنی تحریک کے سیاسی پہلو کو برقرار رکھتے ہوئے بھی اس کے جنسی پہلو کو تسلیم کر سکتے ہیں۔  
    3. **بااختیار بنانا**: نمائشی خواہش کو قبول کرنا خواتین کو اپنی جنسیت پر اختیار دینے کا ایک طریقہ ہے۔  
     
    یہ تینوں نقاط ہمیں ایک متوازن اور صادقانہ تحریک بنانے میں مدد کر سکتے ہیں، جس میں ہم اپنے تمام پہلوؤں کو قبول کرتے ہیں۔  
     
    ## شخصی اعتراف: میری نمائشی خواہش کا سفر  
    میں اعتراف کرتی ہوں کہ جب میں پہلی بار برہنہ صدری احتجاج میں شامل ہوئی، تو میں اپنی نمائشی خواہش سے انکار کرتی تھی۔ میں خود کو یقین دلاتی تھی کہ میرا مقصد صرف سیاسی ہے۔ لیکن جیسے جیسے میں نے احتجاجوں میں حصہ لیا، مجھے احساس ہوا کہ میرا جسم کئی سو لوگوں کے سامنے دکھانا مجھے ایک خاص قسم کی تسکین دیتا ہے۔  
     
    میں یاد کرتی ہوں کہ ایک بار ہم مونٹریال میں احتجاج کر رہے تھے۔ موسم گرم تھا، آسمان صاف تھا، اور میں نے اپنی چولی اتار دی۔ اچانک، سینکڑوں فون کیمرے میری طرف مڑ گئے۔ اس لمحے میں، میں نے محسوس کیا کہ میرا جسم صرف ایک سیاسی آلہ نہیں، بلکہ میری طاقت کا ذریعہ بھی ہے۔ میں نے طاقت محسوس کی، توجہ محسوس کی، اور ہاں، جنسی توانائی بھی محسوس کی۔  
     
    کیا یہ اعتراف میرے نسوانی کردار کو کمزور کرتا ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ نہیں۔ بلکہ، یہ اعتراف میری نسوانیت کو مکمل بناتا ہے، کیونکہ میں اپنے تمام پہلوؤں کو قبول کرتی ہوں۔  
     
    ## نفسیاتی تحلیل: نمائشی خواہش اور سیاسی قابو  
    نفسیاتی منظر سے دیکھا جائے تو، نمائشی خواہش اور سیاسی قابو کے درمیان ایک دلچسپ تعلق ہے۔ میشل فوکو کے مطابق، جسم پر قابو کا معاملہ ہمیشہ طاقت اور سیاست سے جڑا ہوتا ہے۔ پدرشاہی نظام عورت کے جسم پر قابو قائم کرتا ہے، خاص طور پر اس کی جنسیت پر۔  
     
    جب میں برہنہ صدری احتجاج میں حصہ لیتی ہوں، تو یہ صرف قانونی حقوق کی بات نہیں ہوتی، بلکہ اس قابو کے خلاف ایک بغاوت بھی ہوتی ہے۔ میرا جسم، میری جنسیت، میری نمائشی خواہش - یہ سب میرے ہیں، اور میں ان پر اختیار رکھتی ہوں۔  
     
    ## نمائشی خواہش اور نسوانیت: ایک نئی راہ  
    مغربی نسوانی تحریک میں، خاص طور پر دوسری لہر میں، جنسیت کو اکثر مشکوک نظروں سے دیکھا گیا۔ کئی نسوانی دانشوروں نے استدلال کیا کہ جنسیت کا اظہار پدرشاہی نظام کی تائید کرتا ہے۔ لیکن یہ نظریہ ہمارے جنسی اظہار کی آزادی کو محدود کرتا ہے۔  
     
    میں سوچتی ہوں کہ ہمیں ایک نئی راہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے - ایسی راہ جو ہمیں اپنی جنسیت کا اظہار کرنے کی اجازت دے، بغیر اس کے کہ ہم اپنے سیاسی مقاصد سے پیچھے ہٹیں۔ کیا ہم دونوں کام نہیں کر سکتے؟ کیا ہم اپنے جسموں کو سیاسی آلے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں، جبکہ ان سے ذاتی لذت بھی حاصل کریں؟  
     
    ## سماجی ردعمل: لوگ کیا کہتے ہیں  
    برہنہ صدری تحریک پر سماجی ردعمل مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسے سیاسی سمجھتے ہیں، تو کچھ اسے محض جنسی دکھاوا۔ میں نے اپنی تحقیق میں پایا ہے کہ اکثر مردوں کا ردعمل جنسی نوعیت کا ہوتا ہے، جبکہ خواتین میں یہ ردعمل متنوع ہوتا ہے۔  
     
    یہاں ایک اہم سوال اُٹھتا ہے: کیا ہم لوگوں کے ردعمل کو قابو کر سکتے ہیں؟ اگر کوئی شخص ہمارے احتجاج کو جنسی نظر سے دیکھتا ہے، کیا ہم اس سے روک سکتے ہیں؟ میرا ماننا ہے کہ نہیں۔ ہم لوگوں کے ردعمل کو قابو نہیں کر سکتے، لیکن ہم اس سے ڈر کر اپنی تحریک کو محدود بھی نہیں کر سکتے۔  
     
    ## اختتامیہ: برہنہ صدری تحریک کا مستقبل  
    میں یہ مضمون اس امید کے ساتھ ختم کرتی ہوں کہ ہم برہنہ صدری تحریک کے بارے میں ایک صادقانہ گفتگو شروع کر سکیں۔ ہمیں نہ صرف اس تحریک کے سیاسی پہلو پر بات کرنی چاہیے، بلکہ اس کے ذاتی اور جنسی پہلوؤں پر بھی۔  
     
    میرا ماننا ہے کہ ہماری تحریک کی طاقت اس کی جنسیانیت میں بھی ہے۔ جب ہم اپنے جسموں کو دکھاتے ہیں، تو ہم نہ صرف قانونی حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں، بلکہ اپنی نمائشی خواہش کو بھی تسکین دیتے ہیں۔ اور یہ دونوں چیزیں بااختیار ہو سکتی ہیں۔  
     
    میں امید کرتی ہوں کہ ہم ایک ایسی نسوانی تحریک بنا سکتے ہیں جو ہمارے تمام پہلوؤں کو قبول کرتی ہے - ہماری سیاست، ہماری جنسیت، اور ہماری نمائشی خواہش کو۔ کیونکہ حقیقی آزادی تب ہی آتی ہے جب ہم اپنے آپ کو مکمل طور پر قبول کریں۔  
     
     
    ## حوالہ جات
     
    1. باٹلر، جوڈتھ (1990)۔ جنڈر ٹربل: فیمنزم اینڈ دی سبورژن آف آئیڈینٹیٹی۔ نیویارک: روٹلیج۔
     
    2. فوکو، میشل (1978)۔ دی ہسٹری آف سیکسوالٹی: وولیوم 1۔ نیویارک: پینتھین۔
     
    3. لورڈ، آڈری (1984)۔ سسٹر آؤٹسائیڈر: ایسیز اینڈ سپیچز۔ بیرکلے: کراسنگ پریس۔
     
    4. مولوی، لورا (1975)۔ ویژول پلیژر اینڈ نیریٹو سینما۔ اسکرین، 16(3)، 6-18۔
     
    5. ہوکس، بیل (1992)۔ بلیک لکس: ریس اینڈ ریپریزنٹیشن۔ بوسٹن: ساؤتھ اینڈ پریس۔
     
    _______________________________
     
    *ڈاکٹر سیدہ شاہین نور ایک پاکستانی-کینیڈین سماجی نفسیات دان، کارکن، اور ایگزیکٹو پروڈیوسر ہیں۔ انہوں نے نسوانی حقوق، خاص طور پر برہنہ صدری تحریک اور #فری_دی_نپل تحریک کے لئے کام کیا ہے۔ وہ ٹورنٹو یونیورسٹی میں تدریس کرتی ہیں اور متعدد مضامین اور کتابوں کی مصنفہ ہیں۔*
     
  • মতামত দিন
  • বিষয়বস্তু*:
  • সৈয়দা তাহ্‌মিনা আলি | 138.199.***.*** | ১৭ মার্চ ২০২৫ ১০:১৮744585
  • বাংলা প্রতিবর্ণীকরণ -
     
    নাসওয়ানি বারাহনা সদরী তাহরিক কি জিনসিয়ানিয়াত: এক জাতি নজরিয়া
     
    আজ: সৈয়দা শাহীন নূর
     
    পেশ লফজ
     
    ম্যায় আপনি কলম কি নোক সে ইয়ে এ’তিরাফ করতি হুঁ কি জো আলফাজ আজ মেরে লুবোঁ সে জারি হোঙ্গে, ও কেই লোগোঁ কে লিয়ে না-কাবিলে কবুল হোঙ্গে। মেরি মানশা কিসি কো নারাজ করনা নহি, বলকে এক এইসি গুফতগু কো আগাজ দেনা হ্যায় জো বহুত দিনোঁ সে মেরে জেহেন মে গর্দিশ কর রহি হ্যায়। বারাহনা সদরী তাহরিক কি হাকিকত ক্যা হ্যায়? ক্যা ইয়ে মহজ সামাজি আজাদি কা এক মজহার হ্যায় ইয়া ইসকে পিছে আউর ভি গেহরে, পেচিদা, আউর শায়দ নাজুক মুহাররেকাত কারফারমা হ্যায়?
     
    তামহিদ: বারাহনা সদরী তাহরিক মে মেরা রাস্তা
     
    ইবতেদা মে, জব ম্যায়নে নাসওয়ানি বারাহনা সদরী তাহরিক সে ওয়াবাস্তগি কা ফয়সালা কিয়া, মেরে জেহেন মে মুসাওয়াত কা খেয়াল থা - ও বুনিয়াদি হক জো মরদো কো বিলা কিসি রুকাওয়াত হাসিল হ্যায় মাগার আওরাতোঁ সে দারীগ কিয়া জাতা হ্যায়। ম্যায়নে জিনসি মুসাওয়াত কে নাম পর এ’তিজাজ মে শিরকাত কি, তাকরীরেঁ দি, আউর তাহরিরোঁ কে জারিয়ে আপনা পয়গাম ফ্যায়লায়া। লেকিন জ্যায়সে জ্যায়সে ম্যায় ইস তাহরিক কি গাহরাইয়োঁ মে উতারতি গয়ি, মুঝে এহসাস হুয়া কি মেরে আন্দার কুছ আউর ভি থা - এক খোয়াইশ, এক জজবা, জিসে ম্যায়নে কভি পেহচাননে সে ইনকার কিয়া থা।
     
    ইয়ে এ’তিরাফ করনা আসান নহি, লেকিন ম্যায়নে মেহসুস কিয়া কি মেরে লিয়ে, বারাহনা সদরী এ’তিজাজ সির্ফ সিয়াসী নহি থা; ইয়ে ইন্তাহাই জাতি থা। মেরে জিসম কো খুল্লে আম দিখানে কা আমল, হাজারোঁ আঁখো কি মৌজুদগি মে, মুঝে এক খাস তারাহ কি হিসসি তাসকিন ফারাহম করতা থা। ম্যায় ইসে ‘নুমাঈশি খোয়াইশ’ কেহতি হুঁ - আপনে জিসম কো দিখানে কি তালাব, ন সির্ফ আপনি জাত কি তওসিফ কে লিয়ে বলকে উস তাওয়াজ্জো কি ওয়াজাহ সে জো ইসসে মিলতি হ্যায়।
     
    তাজজিয়া: নাসওয়ানি তাহরিক মে নুমাঈশি পেহলু
     
    নাফসিয়াতি মানজার সে দেখা জায়ে তো নুমাঈশি খোয়াইশ এক পেচিদা জজবা হ্যায়। ফ্রয়েড ইসে ‘নাজারা পাসন্দি’ কেহতে হ্যায় - দেখনে আউর দিখানে কি খোয়াইশ। মেরি তাহকিক সে জাহির হোতা হ্যায় কি কেই নাসওয়ানি কারকুনান কে আন্দার ইয়ে খোয়াইশ ছুপি হোতি হ্যায়, খোয়াহ ও ইসে তাসলিম করেঁ ইয়া না করেঁ। হামারে এ’তিজাজ, হামারি তাসবিরেঁ সোশ্যাল মিডিয়া পর ভাইরাল হোনা, আউর মিডিয়া কি তাওয়াজ্জো হাসিল করনা - ইয়ে সব হামারে নুমাঈশি পেহলু কো তাসকিন দেতে হ্যায়।
     
    এক বাত ওয়াজেহ কর দুঁ - ম্যায় ইয়ে নহি কেহ রহি হুঁ কি হার নাসওয়ানি কারকুন নুমাঈশি পেহলু রাখতি হ্যায়। ম্যায় সির্ফ আপনে তাজরুবাত কি বাত কর রহি হুঁ আউর উন খাওয়াতিন কি জিনহোঁনে মুঝসে আপনে তাজরুবাত বাণ্টে হ্যায়। হাম মে সে কুছ কে লিয়ে, বারাহনা সদরী এ’তিজাজ সিয়াসী আউর জাতি দোনো হ্যায় - হাম সামাজি তাবদিলি চাহতে হ্যায়, লেকিন সাথ হি হামে ইস নুমাঈশ সে খাস লজ্জত ভি মিলতি হ্যায়।
     
    ইস্তে’আরাতি তাশরিহ: সিয়াসী আউর জিনসি আজাদি কা তাল্লুক
     
    ম্যায় আকসার সোচতি হুঁ কি ক্যা হামারি জিসমানি আজাদি আউর জিনসি আজাদি মে কোই তাল্লুক হ্যায়? ক্যা বারাহনা সদরী তাহরিক মে শামিল হোনে কা মেরা ফয়সালা সির্ফ সিয়াসী থা ইয়া ইসমে মেরি জিনসি আজাদি কি খোয়াইশ ভি শামিল থি?
     
    নাসওয়ানি নাজরিয়া সাজ অড্রে লর্ড কেহতি হ্যায় কি "শেহওয়ানি হামারি তাকত কা গেহরা সারচাশমা হ্যায়"। শায়দ নাসওয়ানি তাহরিক নে জিনসিয়াত আউর শেহওয়ানি কো মুস্তারিদ কর কে আপনি এক এহম তাকত সে মেহেরুম কর লিয়া হ্যায়। হাম আপনে জিসমোঁ পর এখতিয়ার কি বাত করতে হ্যায়, লেকিন ইস এখতিয়ার মে জিনসি এখতিয়ার শামিল নহি করতে।
     
    মেরা মাননা হ্যায় কি জিনসিয়ানিয়াত কো মুস্তারিদ করনা দারআসাল পেদারশাহি কি হি প্যায়রাভি হ্যায়, জো আওরাত কি জিনসিয়াত কো হামেশা কন্ট্রোল করনা চাহতি হ্যায়। ক্যা হাম আপনে জিসমোঁ কো জিনসি লজ্জত কে লিয়ে ইস্তেমাল করনে পর ফখর নহি কর সাকতে, জাবকি সাথ হি সামাজি মুসাওয়াত কে লিয়ে ভি আওয়াজ উঠাতে হ্যায়?
     
    ময়দানি মুশাহেদাত: এ’তিজাজ কে আন্দার কি কাহানি
     
    ম্যায়নে কেই বারাহনা সদরী এ’তিজাজ কা ইন্তেজাম কিয়া হ্যায়, আউর মেরা মুশাহেদা হ্যায় কি ইন মে শিরকাত করনে ওয়ালি খাওয়াতিন কে মুতা’আদ্দিদ মুহাররেকাত হোতে হ্যায়। কুছ খাওয়াতিন সির্ফ সিয়াসী মাকাসিদ কে লিয়ে শরিক হোতি হ্যায়, লেকিন কেই দিগর কি আঁখো মে ম্যায়নে ওহি চমক দেখি হ্যায় জো মেরে আন্দার মৌজুদ হ্যায় - নুমাঈশি খোয়াইশ কি চমক।
     
    মেরা এক এ’তিজাজ টরন্টো মে থা, জাহাঁ সেঁকড়ো খাওয়াতিন নে আপনে উপরি জিসম কো বারাহনা কর কে শেহের কি গালিয়োঁ মে মুজাহেরা কিয়া। মেরে সাথ এক খাতুন নে বাদ মে এ’তিরাফ কিয়া: "জব ম্যায়নে আপনি কামিজ উতারি, ম্যায়নে ন সির্ফ আজাদি মেহসুস কি, বলকে এক তাকত ভি - হার নজর মেরি তরফ থি, আউর ইয়ে এহসাস... ইন্তাহাই শোর আঙ্গেজ থা।"
    ইয়ে তাজরুবা এক দুসরি তারাহ কি তাকত কি নিশান্দেহি করতা হ্যায় - দেখে জানে কি তাকত, তাওয়াজ্জো হাসিল করনে কি তাকত। হাম ইস তাকত কো ‘মাসুম’ সামাজি এ’তিজাজ কে নাম পর ইস্তেমাল করতে হ্যায়, লেকিন ক্যা হাম আপনে আপ সে ঝুট নহি বোল রহে?
     
    মুতালা’আ: নুমাঈশি খোয়াইশ আউর নাসওয়ানিয়াত কা তাসাদুম
     
    ম্যায়নে আপনি ডক্টরেট কে দৌরান নুমাঈশি খোয়াইশ আউর ইসকে নাফসিয়াতি পেহলুওঁ পর তাহকিক কি। মেরে নাতায়েজ হায়রান কুন থে: নুমাঈশি খোয়াইশ সির্ফ জিনসি নহি, বলকে জাতি ইজহার আউর শেনাখত কা এক তারিখা ভি হ্যায়। কেই নাসওয়ানি কারকুনান কে লিয়ে, আপনে জিসম কো আওয়ামি মাকামাত পর দিখানা ইনকি শাখসিয়াত কা এক এহম হিসসা বান জাতা হ্যায়।
    মেরা ইস্তেদলাল ইয়ে হ্যায় কি হামে ইস নুমাঈশি পেহলু কো কবুল করনা চাহিয়ে, ন কি ইসে ছুপানা চাহিয়ে। আগার হাম ইসে কবুল করেঙ্গে তো হাম বারাহনা সদরী তাহরিক কো এক নঈ সিমত দে সাকতে হ্যায় - এইসি সিমত জো জিসমানি আজাদি আউর জিনসি আজাদি দোনো কো তাসলিম করতি হ্যায়।
     
    আমলি পেহলু: তাহরিক কি জিনসিয়ানিয়াত কো ক্যায়সে সাম্ভালেঁ
     
    আব সওয়াল ইয়ে হ্যায় কি হাম ইস জিনসিয়ানিয়াত কো ক্যায়সে আপনি তাহরিক মে শামিল করেঁ, বাগার ইসকে কি হামারি তাহরিক কি সানজিদগি মুতা’আসির হো?
     
    ম্যায় তিন নুকাত পেশ করতি হুঁ:
     
    ১. সাদাকত: হামে আপনে মুখতালিফ মুহরেকাত কে বারে মে সাদিক হোনা চাহিয়ে, চাহে ও সিয়াসী হো ইয়া জাতি।
     
    ২. তওয়াজ্জুন: হাম আপনি তাহরিক কে সিয়াসী পেহলু কো বরকরার রখতে হুয়ে ভি ইসকে জিনসি পেহলু কো তাসলিম কর সাকতে হ্যায়।
     
    ৩. বা-এখতিয়ার বানানা: নুমাঈশি খোয়াইশ কো কবুল করনা খাওয়াতিন কো আপনি জিনসিয়াত পর এখতিয়ার দেনে কা এক তারিখা হ্যায়।
    ইয়ে তিনোঁ নুকাত হামে এক মুতাওয়াজ্জুন আউর সাদিকানা তাহরিক বানানে মে মাদাদ কর সাকতে হ্যায়, জিস মে হাম আপনে তামাম পেহলুওঁ কো কবুল করতে হ্যায়।
     
    শাখসি এ’তিরাফ: মেরি নুমাঈশি খোয়াইশ কা সফর
     
    ম্যায় এ’তিরাফ করতি হুঁ কি জব ম্যায় পেহলি বার বারাহনা সদরী এ’তিজাজ মে শামিল হুয়ি, তো ম্যায় আপনি নুমাঈশি খোয়াইশ সে ইনকার করতি থি। ম্যায় খুদ কো ইয়াকিন দিলাতি থি কি মেরা মাকসাদ সির্ফ সিয়াসী হ্যায়। লেকিন জ্যায়সে জ্যায়সে ম্যায়নে এ’তিজাজোঁ মে হিসসা লিয়া, মুঝে এহসাস হুয়া কি মেরা জিসম কেই সৌ লোগোঁ কে সামনে দিখানা মুঝে এক খাস কিসম কি তাসকিন দেতা হ্যায়।
     
    ম্যায় ইয়াদ করতি হুঁ কি এক বার হাম মন্ট্রিয়াল মে এ’তিজাজ কর রহে থে। মৌসুম গরম থা, আসমান সাফ থা, আউর ম্যায়নে আপনি চোঁলি উতার দি। আচানক, সেঁকড়ো ফোন ক্যামেরা মেরি তরফ মুড় গয়ে। উস লমহোঁ মে, ম্যায়নে মেহসুস কিয়া কি মেরা জিসম সির্ফ এক সিয়াসী আলা নহি, বলকে মেরি তাকত কা জারিয়া ভি হ্যায়। ম্যায়নে তাকত মেহসুস কি, তাওয়াজ্জো মেহসুস কি, আউর হ্যাঁ, জিনসি তওয়ানাই ভি মেহসুস কি।
     
    ক্যা ইয়ে এ’তিরাফ মেরে নাসওয়ানি কিরদার কো কামজোর করতা হ্যায়? ম্যায় সমাজতি হুঁ কি নহি। বলকে, ইয়ে এ’তিরাফ মেরি নাসওয়ানিয়াত কো মুকাম্মাল বানাতা হ্যায়, কিউঁকি ম্যায় আপনে তামাম পেহলুওঁ কো কবুল করতি হুঁ।
     
    নাফসিয়াতি তাহলিল: নুমাঈশি খোয়াইশ আউর সিয়াসী কাবু
     
    নাফসিয়াতি মানজার সে দেখা জায়ে তো, নুমাঈশি খোয়াইশ আউর সিয়াসী কাবু কে দারমিয়ান এক দিলচস্প তাল্লুক হ্যায়। মিশেল ফুকো কে মুতাবিক, জিসম পর কাবু কা মামলা হামেশা তাকত আউর সিয়াসত সে জুড়া হোতা হ্যায়। পেদারশাহি নিজাম আওরাত কে জিসম পর কাবু কায়েম করতা হ্যায়, খাস তৌর পর ইসকি জিনসিয়াত পর।
     
    জব ম্যায় বারাহনা সদরী এ’তিজাজ মে হিসসা লেতি হুঁ, তো ইয়ে সির্ফ কানুনি হুকুক কি বাত নহি হোতি, বলকে ইস কাবু কে খিলাফ এক বাগাওয়াত ভি হোতি হ্যায়। মেরা জিসম, মেরি জিনসিয়াত, মেরি নুমাঈশি খোয়াইশ - ইয়ে সব মেরে হ্যায়, আউর ম্যায় ইন পর এখতিয়ার রাখতি হুঁ।
     
    নুমাঈশি খোয়াইশ আউর নাসওয়ানিয়াত: এক নঈ রাহ
     
    মাগরিবী নাসওয়ানি তাহরিক মে, খাস তৌর পর দুসরি লেহের মে, জিনসিয়াত কো আকসার মাশকুক নজরোঁ সে দেখা গয়া। কেই নাসওয়ানি দানিশ্বরোঁ নে ইস্তেদলাল কিয়া কি জিনসিয়াত কা ইজহার পেদারশাহি নিজাম কি তাইয়িদ করতা হ্যায়। লেকিন ইয়ে নাজরিয়া হামারে জিনসি ইজহার কি আজাদি কো মেহদুদ করতা হ্যায়।
    ম্যায় সোচতি হুঁ কি হামে এক নঈ রাহ তালাশ করনে কি জরুরত হ্যায় - এইসি রাহ জো হামে আপনি জিনসিয়াত কা ইজহার করনে কি ইজাজত দে, বাগার ইসকে কি হাম আপনে সিয়াসী মাকাসিদ সে পিছে হটেঁ। ক্যা হাম দোনো কাম নহি কর সাকতে? ক্যা হাম আপনে জিসমোঁ কো সিয়াসী আলে কে তৌর পর ইস্তেমাল কর সাকতে হ্যায়, জাবকি ইনসে জাতি লজ্জত ভি হাসিল করেঁ?
     
    সামাজি রদ্দে-আমল: লোগ ক্যা কেহতে হ্যায়
     
    বারাহনা সদরী তাহরিক পর সামাজি রদ্দে-আমল মুখতালিফ হোতা হ্যায়। কুছ লোগ ইসে সিয়াসী সমাজতে হ্যায়, তো কুছ ইসে মহজ জিনসি দিখাওয়া। ম্যায়নে আপনি তাহকিক মে পায়া হ্যায় কি আকসার মরদোঁ কা রদ্দে-আমল জিনসি নওইয়াত কা হোতা হ্যায়, জাবকি খাওয়াতিন মে ইয়ে রদ্দে-আমল মুতানাওয়ে হোতা হ্যায়।
    ইয়াহাঁ এক এহম সওয়াল উঠতা হ্যায়: ক্যা হাম লোগোঁ কে রদ্দে-আমল কো কাবু কর সাকতে হ্যায়? আগার কোই শাখস হামারে এ’তিজাজ কো জিনসি নজর সে দেখতা হ্যায়, ক্যা হাম উসসে রোক সাকতে হ্যায়? মেরা মাননা হ্যায় কি নহি। হাম লোগোঁ কে রদ্দে-আমল কো কাবু নহি কর সাকতে, লেকিন হাম ইসসে ডর কর আপনি তাহরিক কো মেহদুদ ভি নহি কর সাকতে।
     
    ইখতেতামিয়া: বারাহনা সদরী তাহরিক কা মুস্তাকবিল
     
    ম্যায় ইয়ে মাজমুন ইস উম্মিদ কে সাথ খতম করতি হুঁ কি হাম বারাহনা সদরী তাহরিক কে বারে মে এক সাদিকানা গুফতগু শুরু কর সকেঁ। হামে ন সির্ফ ইস তাহরিক কে সিয়াসী পেহলু পর বাত করনি চাহিয়ে, বলকে ইসকে জাতি আউর জিনসি পেহলুওঁ পর ভি।
     
    মেরা মাননা হ্যায় কি হামারি তাহরিক কি তাকত ইসকি জিনসিয়ানিয়াত মে ভি হ্যায়। জব হাম আপনে জিসমোঁ কো দিখাতে হ্যায়, তো হাম ন সির্ফ কানুনি হুকুক কে লিয়ে আওয়াজ উঠাতে হ্যায়, বলকে আপনি নুমাঈশি খোয়াইশ কো ভি তাসকিন দেতে হ্যায়। আউর ইয়ে দোনো চিজ়েঁ বা-এখতিয়ার হো সাকতি হ্যায়।
     
    ম্যায় উম্মিদ করতি হুঁ কি হাম এক এইসি নাসওয়ানি তাহরিক বানা সাকতে হ্যায় জো হামারে তামাম পেহলুওঁ কো কবুল করতি হ্যায় - হামারি সিয়াসত, হামারি জিনসিয়াত, আউর হামারি নুমাঈশি খোয়াইশ কো। কিউঁকি হাকিকি আজাদি তব হি আতি হ্যায় জব হাম আপনে আপ কো মুকাম্মাল তৌর পর কবুল করেঁ।
     
    হাওয়ালাজাত
    ১. বাটলার, জুডিত (১৯৯০)। জেন্ডার ট্রাবল: ফেমিনিজম অ্যান্ড দি সাবভারশন অফ আইডেন্টিটি। নিউ ইয়র্ক: রাউটলেজ।
    ২. ফুকো, মিশেল (১৯৭৮)। দি হিস্টরি অফ সেক্সুয়ালিটি: ভলিউম ১। নিউ ইয়র্ক: প্যানথিয়ন।
    ৩. লর্ড, অড্রে (১৯৮৪)। সিস্টার আউটসাইডার: এসেজ অ্যান্ড স্পিচেস। বার্কলে: ক্রসিং প্রেস।
    ৪. মালভি, লরা (১৯৭৫)। ভিজ্যুয়াল প্লেজার অ্যান্ড ন্যারেটিভ সিনেমা। স্ক্রিন, ১৬(৩), ৬-১৮।
    ৫. হুকস, বেল (১৯৯২)। ব্ল্যাক লুকস: রেস অ্যান্ড রিপ্রেজেন্টেশন। বোস্টন: সাউথ এন্ড প্রেস।
     
    ডাক্তার সৈয়দা শাহীন নূর এক পাকিস্তানি-কানাডিয়ান সামাজি নাফসিয়াত দান, কারকুন, আউর এক্সিকিউটিভ প্রডিউসার হ্যায়। উনহোঁনে নাসওয়ানি হুকুক, খাস তৌর পর বারাহনা সদরী তাহরিক আউর #ফ্রি_দি_নিপল তাহরিক কে লিয়ে কাম কিয়া হ্যায়। ও টরন্টো ইউনিভার্সিটি মে তাদরিস করতি হ্যায় আউর মুতা’আদ্দিদ মাজামিন আউর কিতাবোঁ কি মুসান্নিফা হ্যায়।
     
  • সৈয়দা তাহ্‌মিনা আলি | 138.199.***.*** | ১৭ মার্চ ২০২৫ ১০:২২744586
  • অক্ষম বঙ্গানুবাদ -
     
    নারীবাদী নগ্ন বক্ষ আন্দোলন এর যৌনতা: একটি ব্যক্তিগত দৃষ্টিভঙ্গি
     
    লেখক: সৈয়দা শাহীন নূর
     
    ভূমিকা
     
    আমি আমার কলমের ডগা দিয়ে স্বীকার করছি যে, আজ আমার ঠোঁট থেকে যে শব্দগুলো বের হবে, তা অনেকের কাছে অগ্রহণযোগ্য হবে। আমার উদ্দেশ্য কাউকে অসন্তুষ্ট করা নয়, বরং এমন একটি আলোচনার সূচনা করা যা দীর্ঘদিন ধরে আমার মনে ঘুরপাক খাচ্ছে। নগ্ন বক্ষ আন্দোলনের বাস্তবতা কী? এটা কি শুধুই সামাজিক স্বাধীনতার একটি প্রকাশ, নাকি এর পেছনে আরও গভীর, জটিল এবং সম্ভবত সংবেদনশীল কারণ রয়েছে?
     
    ভূমিকা: নগ্ন বক্ষ আন্দোলনে আমার পথ
     
    শুরুতে, যখন আমি নারীবাদী নগ্ন বক্ষ আন্দোলনের সাথে যুক্ত হওয়ার সিদ্ধান্ত নিয়েছিলাম, তখন আমার মনে সমতার ধারণা ছিল - সেই মৌলিক অধিকার যা পুরুষরা কোনো বাধা ছাড়াই পায়, কিন্তু নারীদের থেকে বঞ্চিত করা হয়। আমি লিঙ্গ সমতার নামে প্রতিবাদে অংশ নিয়েছি, বক্তৃতা দিয়েছি এবং লেখার মাধ্যমে আমার বার্তা ছড়িয়ে দিয়েছি। কিন্তু যত গভীরে আমি এই আন্দোলনের গভীরে প্রবেশ করেছি, আমি বুঝতে পেরেছি যে আমার ভিতরে আরও কিছু ছিল - একটি ইচ্ছা, একটি আবেগ, যা আমি কখনও স্বীকার করতে অস্বীকার করেছি।
    এটা স্বীকার করা সহজ নয়, কিন্তু আমি অনুভব করেছি যে, আমার জন্য নগ্ন বক্ষ প্রতিবাদ শুধু রাজনৈতিক ছিল না; এটা অত্যন্ত ব্যক্তিগত ছিল। হাজার হাজার চোখের উপস্থিতিতে আমার শরীরকে প্রকাশ্যে দেখানোর কাজ আমাকে এক বিশেষ ধরনের সংবেদনশীল তৃপ্তি দেয়। আমি একে 'প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা' বলি - আমার শরীর দেখানোর আকাঙ্ক্ষা, শুধু নিজের পরিচয়ের বৈধতার জন্য নয়, বরং এর থেকে পাওয়া মনোযোগের কারণেও।
     
    বিশ্লেষণ: নারীবাদী আন্দোলনে প্রদর্শনবাদী দিক
     
    মনস্তাত্ত্বিক দৃষ্টিকোণ থেকে দেখলে, প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা একটি জটিল আবেগ। ফ্রয়েড একে 'দর্শনবাদ' বলেন - দেখা এবং দেখানোর ইচ্ছা। আমার গবেষণা থেকে দেখা যায় যে, অনেক নারীবাদী কর্মীর মধ্যে এই ইচ্ছা লুকিয়ে থাকে, তারা স্বীকার করুক বা না করুক। আমাদের প্রতিবাদ, সোশ্যাল মিডিয়ায় আমাদের ছবি ভাইরাল হওয়া এবং মিডিয়ার মনোযোগ পাওয়া - এই সবই আমাদের প্রদর্শনবাদী দিককে তৃপ্তি দেয়।
     
    একটি বিষয় স্পষ্ট করে দিই: আমি বলছি না যে, প্রতিটি নারীবাদী কর্মীর মধ্যে প্রদর্শনবাদী দিক রয়েছে। আমি শুধু আমার অভিজ্ঞতার কথা বলছি এবং সেই নারীদের কথা বলছি যারা আমার সাথে তাদের অভিজ্ঞতা শেয়ার করেছেন। আমাদের মধ্যে কয়েকজনের জন্য, নগ্ন বক্ষ প্রতিবাদ রাজনৈতিক এবং ব্যক্তিগত উভয়ই - আমরা সামাজিক পরিবর্তন চাই, কিন্তু একই সাথে আমরা এই প্রদর্শনী থেকে বিশেষ আনন্দও পাই।
     
    রূপক ব্যাখ্যা: রাজনৈতিক এবং যৌন স্বাধীনতার সম্পর্ক
     
    আমি প্রায়শই ভাবি যে, আমাদের শারীরিক স্বাধীনতা এবং যৌন স্বাধীনতার মধ্যে কোনো সম্পর্ক আছে কি? নগ্ন বক্ষ আন্দোলনে যোগ দেওয়ার আমার সিদ্ধান্ত কি শুধুই রাজনৈতিক ছিল, নাকি এতে আমার যৌন স্বাধীনতার ইচ্ছাও জড়িত ছিল?
     
    নারীবাদী তাত্ত্বিক অড্রে লর্ড বলেন, "কামনা আমাদের শক্তির গভীর উৎস"। সম্ভবত নারীবাদী আন্দোলন যৌনতা এবং কামনাকে প্রত্যাখ্যান করে তার একটি গুরুত্বপূর্ণ শক্তি হারিয়েছে। আমরা আমাদের শরীরের উপর অধিকারের কথা বলি, কিন্তু সেই অধিকারে যৌন অধিকার অন্তর্ভুক্ত করি না।
     
    আমার বিশ্বাস, যৌনতাকে প্রত্যাখ্যান করা আসলে পিতৃতন্ত্রের অনুসরণ করা, যা সবসময় নারীর যৌনতাকে নিয়ন্ত্রণ করতে চায়। আমরা কি আমাদের শরীরকে যৌন আনন্দের জন্য ব্যবহার করতে গর্ব করতে পারি না, একই সাথে সামাজিক সমতার জন্য আওয়াজ তুলতে পারি?
     
    মাঠ পর্যায়ের পর্যবেক্ষণ: প্রতিবাদের ভেতরের গল্প
     
    আমি অনেক নগ্ন বক্ষ প্রতিবাদের আয়োজন করেছি এবং আমার পর্যবেক্ষণ হলো, এতে অংশগ্রহণকারী নারীদের একাধিক উদ্দেশ্য থাকে। কিছু নারী শুধু রাজনৈতিক উদ্দেশ্যে অংশ নেয়, কিন্তু অন্যদের চোখে আমি সেই একই ঝলক দেখেছি যা আমার মধ্যে রয়েছে - প্রদর্শনবাদী ইচ্ছার ঝলক।
     
    আমার একটি প্রতিবাদ টরন্টোতে ছিল, যেখানে শত শত নারী তাদের উপরের শরীর নগ্ন করে শহরের রাস্তায় বিক্ষোভ করেছিল। আমার সাথে থাকা এক নারী পরে স্বীকার করেছেন: "যখন আমি আমার শার্ট খুলেছিলাম, তখন আমি শুধু স্বাধীনতা অনুভব করিনি, বরং একটি শক্তিও অনুভব করেছি - প্রতিটি চোখ আমার দিকে ছিল, এবং এই অনুভূতি... অত্যন্ত উত্তেজনাপূর্ণ ছিল।"
    এই অভিজ্ঞতা অন্য ধরনের শক্তির ইঙ্গিত দেয় - দেখার শক্তি, মনোযোগ পাওয়ার শক্তি। আমরা এই শক্তিকে 'নিষ্পাপ' সামাজিক প্রতিবাদ হিসেবে ব্যবহার করি, কিন্তু আমরা কি নিজেদের সাথে মিথ্যা বলছি না?
     
    গবেষণা: প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা এবং নারীবাদ এর সংঘর্ষ
     
    আমি আমার ডক্টরেটের সময় প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা এবং এর মনস্তাত্ত্বিক দিক নিয়ে গবেষণা করেছি। আমার ফলাফল আশ্চর্যজনক ছিল: প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা শুধু যৌন নয়, বরং ব্যক্তিগত অভিব্যক্তি এবং পরিচয়ের একটি উপায়ও। অনেক নারীবাদী কর্মীর জন্য, তাদের শরীরকে জনসমক্ষে দেখানো তাদের ব্যক্তিত্বের একটি গুরুত্বপূর্ণ অংশ হয়ে ওঠে।
     
    আমার যুক্তি হলো, আমাদের এই প্রদর্শনবাদী দিকটি গ্রহণ করা উচিত, লুকানো নয়। যদি আমরা এটি গ্রহণ করি, তবে আমরা নগ্ন বক্ষ আন্দোলনকে একটি নতুন দিক দিতে পারি - এমন একটি দিক যা শারীরিক স্বাধীনতা এবং যৌন স্বাধীনতা উভয়কেই স্বীকৃতি দেয়।
     
    ব্যবহারিক দিক: আন্দোলনের যৌনতাকে কীভাবে সামলাবেন
     
    এখন প্রশ্ন হলো, আমরা কীভাবে এই যৌনতাকে আমাদের আন্দোলনে অন্তর্ভুক্ত করব, যাতে আমাদের আন্দোলনের গুরুত্ব ক্ষতিগ্রস্ত না হয়?
    আমি তিনটি পয়েন্ট প্রস্তাব করছি:
    ১. সত্যবাদিতা: আমাদের বিভিন্ন উদ্দেশ্য সম্পর্কে সত্যবাদী হতে হবে, তা রাজনৈতিক হোক বা ব্যক্তিগত।
    ২. ভারসাম্য: আমরা আমাদের আন্দোলনের রাজনৈতিক দিক বজায় রেখেও এর যৌন দিকটি স্বীকার করতে পারি।
    ৩. ক্ষমতায়ন: প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা গ্রহণ করা নারীদের তাদের যৌনতার উপর অধিকার দেওয়ার একটি উপায়।
     
    এই তিনটি পয়েন্ট আমাদের একটি ভারসাম্যপূর্ণ এবং সত্যবাদী আন্দোলন তৈরি করতে সাহায্য করতে পারে, যেখানে আমরা আমাদের সমস্ত দিক গ্রহণ করি।
     
    ব্যক্তিগত স্বীকারোক্তি: আমার প্রদর্শনবাদী ইচ্ছার যাত্রা
     
    আমি স্বীকার করি যে, যখন আমি প্রথমবার নগ্ন বক্ষ প্রতিবাদে যোগ দিয়েছিলাম, তখন আমি আমার প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা অস্বীকার করেছিলাম। আমি নিজেকে বিশ্বাস করিয়েছিলাম যে, আমার উদ্দেশ্য শুধু রাজনৈতিক। কিন্তু যতবার আমি প্রতিবাদে অংশ নিয়েছি, আমি বুঝতে পেরেছি যে, কয়েকশো লোকের সামনে আমার শরীর দেখানো আমাকে এক বিশেষ ধরনের তৃপ্তি দেয়।
    আমার মনে আছে, একবার আমরা মন্ট্রিলে প্রতিবাদ করছিলাম। আবহাওয়া গরম ছিল, আকাশ পরিষ্কার ছিল এবং আমি আমার ব্রা খুলেছিলাম। হঠাৎ, শত শত ফোনের ক্যামেরা আমার দিকে ঘুরে গেল। সেই মুহূর্তে, আমি অনুভব করেছি যে, আমার শরীর শুধু একটি রাজনৈতিক হাতিয়ার নয়, বরং আমার শক্তির উৎসও। আমি শক্তি অনুভব করেছি, মনোযোগ অনুভব করেছি এবং হ্যাঁ, যৌন শক্তিও অনুভব করেছি।
    এই স্বীকারোক্তি কি আমার নারীবাদী চরিত্রকে দুর্বল করে? আমি মনে করি না। বরং, এই স্বীকারোক্তি আমার নারীবাদকে সম্পূর্ণ করে, কারণ আমি আমার সমস্ত দিক গ্রহণ করি।
     
    মনস্তাত্ত্বিক বিশ্লেষণ: প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা এবং রাজনৈতিক নিয়ন্ত্রণ
     
    মনস্তাত্ত্বিক দৃষ্টিকোণ থেকে দেখলে, প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা এবং রাজনৈতিক নিয়ন্ত্রণের মধ্যে একটি আকর্ষণীয় সম্পর্ক রয়েছে। মিশেল ফুকোর মতে, শরীরের উপর নিয়ন্ত্রণের বিষয়টি সবসময় শক্তি এবং রাজনীতির সাথে জড়িত। পিতৃতান্ত্রিক ব্যবস্থা নারীর শরীরের উপর নিয়ন্ত্রণ প্রতিষ্ঠা করে, বিশেষ করে তার যৌনতার উপর।
    যখন আমি নগ্ন বক্ষ প্রতিবাদে অংশ নিই, তখন এটি শুধু আইনি অধিকারের বিষয় নয়, বরং এই নিয়ন্ত্রণের বিরুদ্ধে একটি বিদ্রোহও। আমার শরীর, আমার যৌনতা, আমার প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা - এই সবই আমার, এবং আমার তাদের উপর অধিকার রয়েছে।
    প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা এবং নারীবাদ: একটি নতুন পথ
    পশ্চিমা নারীবাদী আন্দোলনে, বিশেষ করে দ্বিতীয় তরঙ্গে, যৌনতাকে প্রায়শই সন্দেহজনক চোখে দেখা হয়েছে। অনেক নারীবাদী বুদ্ধিজীবী যুক্তি দিয়েছেন যে, যৌনতার প্রকাশ পিতৃতান্ত্রিক ব্যবস্থাকে সমর্থন করে। কিন্তু এই ধারণা আমাদের যৌন প্রকাশের স্বাধীনতাকে সীমিত করে।
    আমি মনে করি, আমাদের একটি নতুন পথ খুঁজে বের করা দরকার - এমন একটি পথ যা আমাদের আমাদের যৌনতা প্রকাশ করার অনুমতি দেয়, আমাদের রাজনৈতিক উদ্দেশ্য থেকে পিছিয়ে না গিয়ে। আমরা কি উভয় কাজ করতে পারি না? আমরা কি আমাদের শরীরকে রাজনৈতিক হাতিয়ার হিসেবে ব্যবহার করতে পারি, একই সাথে তাদের থেকে ব্যক্তিগত আনন্দও পেতে পারি?
    সামাজিক প্রতিক্রিয়া: লোকেরা কী বলে
    নগ্ন বক্ষ আন্দোলনে সামাজিক প্রতিক্রিয়া ভিন্ন হয়। কিছু লোক এটিকে রাজনৈতিক মনে করে, আবার কেউ কেউ এটিকে নিছক যৌন প্রদর্শনী মনে করে। আমি আমার গবেষণায় দেখেছি যে, বেশিরভাগ পুরুষের প্রতিক্রিয়া যৌন প্রকৃতির হয়, যেখানে নারীদের মধ্যে এই প্রতিক্রিয়া বিভিন্ন ধরনের হয়।
    এখানে একটি গুরুত্বপূর্ণ প্রশ্ন ওঠে: আমরা কি মানুষের প্রতিক্রিয়া নিয়ন্ত্রণ করতে পারি? যদি কেউ আমাদের প্রতিবাদকে যৌন দৃষ্টিকোণ থেকে দেখে, আমরা কি তাকে থামাতে পারি? আমার বিশ্বাস, না। আমরা মানুষের প্রতিক্রিয়া নিয়ন্ত্রণ করতে পারি না, কিন্তু আমরা ভয় পেয়ে আমাদের আন্দোলনকে সীমিত করতে পারি না।
     
    উপসংহার: নগ্ন বক্ষ আন্দোলনের ভবিষ্যৎ
    আমি এই আশা নিয়ে এই নিবন্ধটি শেষ করছি যে, আমরা নগ্ন বক্ষ আন্দোলন সম্পর্কে একটি সত্যবাদী আলোচনা শুরু করতে পারি। আমাদের শুধু এই আন্দোলনের রাজনৈতিক দিক নিয়ে আলোচনা করা উচিত নয়, বরং এর ব্যক্তিগত এবং যৌন দিক নিয়েও আলোচনা করা উচিত।
    আমার বিশ্বাস, আমাদের আন্দোলনের শক্তি এর যৌনতার মধ্যেও রয়েছে। যখন আমরা আমাদের শরীর দেখাই, তখন আমরা শুধু আইনি অধিকারের জন্য আওয়াজ তুলি না, বরং আমাদের প্রদর্শনবাদী ইচ্ছাকেও তৃপ্তি দিই। এবং এই দুটি জিনিসই ক্ষমতায়ন করতে পারে।
    আমি আশা করি যে, আমরা এমন একটি নারীবাদী আন্দোলন তৈরি করতে পারি যা আমাদের সমস্ত দিক গ্রহণ করে - আমাদের রাজনীতি, আমাদের যৌনতা এবং আমাদের প্রদর্শনবাদী ইচ্ছা। কারণ প্রকৃত স্বাধীনতা তখনই আসে যখন আমরা নিজেদের সম্পূর্ণরূপে গ্রহণ করি।
     
    রেফারেন্স
    ১. বাটলার, জুডিথ (১৯৯০)। জেন্ডার ট্রাবল: ফেমিনিজম অ্যান্ড দ্য সাবভারশন অফ আইডেন্টিটি। নিউ ইয়র্ক: রাউটলেজ।
    ২. ফুকো, মিশেল (১৯৭৮)। দ্য হিস্টরি অফ সেক্সুয়ালিটি: ভলিউম ১। নিউ ইয়র্ক: প্যানথিয়ন।
    ৩. লর্ড, অড্রে (১৯৮৪)। সিস্টার আউটসাইডার: এসেজ অ্যান্ড স্পিচেস। বার্কলে: ক্রসিং প্রেস।
    ৪. মালভি, লরা (১৯৭৫)। ভিজ্যুয়াল প্লেজার অ্যান্ড ন্যারেটিভ সিনেমা। স্ক্রিন, ১৬(৩), ৬-১৮।
    ৫. হুকস, বেল (১৯৯২)। ব্ল্যাক লুকস: রেস অ্যান্ড রিপ্রেজেন্টেশন। বোস্টন: সাউথ এন্ড প্রেস।
     
    ডাক্তার সৈয়দা শাহীন নূর একজন পাকিস্তানি-কানাডিয়ান সমাজ মনোবিজ্ঞানী, কর্মী এবং নির্বাহী প্রযোজক। তিনি নারীবাদী অধিকার, বিশেষ করে নগ্ন বক্ষ আন্দোলন এবং #ফ্রি_দ্য_নিপল আন্দোলনের জন্য কাজ করেছেন। তিনি টরন্টো বিশ্ববিদ্যালয়ে অধ্যাপনা করেন এবং অসংখ্য নিবন্ধ এবং বইয়ের লেখিকা।
     
  • সৈয়দা তাহমিনা আলি | 138.199.***.*** | ১৭ মার্চ ২০২৫ ১০:৩২744587
  • আমার মূল্যায়ন
     
    ## ভূমিকা: প্রবন্ধের সাধারণ বিশ্লেষণ
     
    সৈয়দা শাহীন নূরের এই প্রবন্ধটি আপাতদৃষ্টিতে নারীবাদী বিশ্লেষণের আকারে উপস্থাপিত হলেও, এটি মূলত পিতৃতান্ত্রিক দৃষ্টিভঙ্গি দ্বারা গভীরভাবে প্রভাবিত একটি বিপজ্জনক রচনা। লেখক দাবি করেন যে তাঁর লেখা একটি "ব্যক্তিগত দৃষ্টিকোণ" উপস্থাপন করছে, কিন্তু বাস্তবে এই প্রবন্ধটি নারীবাদী আন্দোলনকে দুর্বল করার এবং মুক্ত স্তন বিক্ষোভকে পিতৃতান্ত্রিক পুরুষালী দৃষ্টির (male gaze) বিষয়বস্তুতে পরিণত করার একটি সূক্ষ্ম প্রচেষ্টা। 
     
    আমরা দেখতে পাই যে প্রবন্ধকার তাঁর "প্রদর্শনমূলক ইচ্ছা" (exhibitionist desire) সম্পর্কে আলোচনা করে নারীদের নিজেদের শরীরকে "প্রদর্শন" হিসেবে দেখার যে পিতৃতান্ত্রিক ধারণা, সেটিকেই শুধু পুনরুৎপাদন করেননি, বরং এটিকে নারীবাদী আন্দোলনের অংশ হিসেবে প্রতিষ্ঠার চেষ্টা করেছেন। এটি হলো মূলত নারীবাদী সংগ্রামের রাজনৈতিক ও সমাজতাত্ত্বিক মূল্যকে খাটো করে দেখার একটি মারাত্মক চেষ্টা।
     
    ## সামাজিক-রাজনৈতিক সংগ্রামকে যৌনায়িতকরণ
     
    যে সমস্যাটি সবচেয়ে উদ্বেগজনক, তা হল লেখক নারীদের সামাজিক-রাজনৈতিক সংগ্রামকে যৌনতার ফ্রেমে প্রতিষ্ঠিত করার চেষ্টা করেছেন। তিনি লিখেছেন: "আমি উপলব্ধি করলাম যে আমার জন্য, উলঙ্গ স্তন প্রতিবাদ শুধুমাত্র রাজনৈতিক নয়; এটি ছিল অত্যন্ত ব্যক্তিগত। হাজার হাজার চোখের সামনে আমার শরীরকে প্রকাশ্যে প্রদর্শন করার ক্রিয়া আমাকে এক বিশেষ ধরনের ইন্দ্রিয়জ তৃপ্তি প্রদান করত।"
     
    এই ধরনের বর্ণনা মূলত পিতৃতান্ত্রিক সমাজব্যবস্থার সমর্থনকারী। কারণ:
     
    ১. এটি নারীর শরীরকে 'পণ্য' হিসেবে দেখার যে ধারণা, তাকেই বৈধতা দেয়।
    ২. নারীবাদী রাজনৈতিক কর্মকে তার সত্যিকারের সামাজিক প্রসঙ্গ থেকে বিচ্ছিন্ন করে যৌন আখ্যানে রূপান্তরিত করে।
    ৩. নারী আন্দোলনকে পুরুষতান্ত্রিক সমাজের যৌন দৃষ্টির বিষয়বস্তু হিসেবে পুনঃসংজ্ঞায়িত করে।
     
    নারীবাদী চিন্তাবিদ অদ্রিয়েন রিচ আমাদের শিখিয়েছেন যে নারীর শরীরকে যৌনায়িত করার এই প্রক্রিয়া হল পিতৃতন্ত্রের একটি মৌলিক কৌশল, যার মাধ্যমে নারীকে তার রাজনৈতিক ক্ষমতা থেকে বঞ্চিত করা হয়। নারীর শরীরের সাংস্কৃতিক বিনিময় মূল্যকে তার রাজনৈতিক কণ্ঠের বিপরীতে স্থাপন করা হয়।
     
    ## ফ্রয়েডীয় মনোবিশ্লেষণের প্রতারণামূলক ব্যবহার
     
    লেখক ফ্রয়েডীয় মনোবিশ্লেষণের ধারণাগুলি ব্যবহার করে এমন একটি যুক্তি গড়ে তুলেছেন যা আসলে গভীরভাবে সমস্যাযুক্ত:
     
    "মনস্তাত্ত্বিক দৃষ্টিকোণ থেকে দেখলে, প্রদর্শনমূলক ইচ্ছা একটি জটিল আবেগ। ফ্রয়েড একে 'voyeurism' (দৃষ্টিবাজী) বলেন - দেখা এবং দেখানোর ইচ্ছা।"
     
    এখানে লেখক ফ্রয়েডের তত্ত্বকে নারীবাদী আন্দোলনের সাথে সংযুক্ত করার চেষ্টা করছেন, যদিও ফ্রয়েডের যৌনতার তত্ত্ব মূলত পুরুষতান্ত্রিক দৃষ্টিভঙ্গি দ্বারা প্রভাবিত ছিল। ফ্রয়েড নিজেই নারীদের যৌনতা সম্পর্কে সমস্যাযুক্ত ধারণা রাখতেন, যা বহু নারীবাদী চিন্তাবিদ যেমন কেট মিলেট (Kate Millett), জুলিয়েট মিশেল (Juliet Mitchell) প্রমুখ গভীরভাবে সমালোচনা করেছেন।
     
    নারী আন্দোলনকে ফ্রয়েডীয় "দৃষ্টিবাজী" ধারণার অধীনে ব্যাখ্যা করা মূলত:
     
    ১. নারীর রাজনৈতিক কর্মকে মানসিক রোগবিদ্যার ফ্রেমে দুর্বল করে দেখানো
    ২. নারীর আন্দোলনকে লৈঙ্গিক অসমতা থেকে বিচ্ছিন্ন করে শুধুমাত্র মনস্তাত্ত্বিক প্রেক্ষাপটে বিশ্লেষণ করা
    ৩. সমাজতান্ত্রিক নারীবাদের মৌলিক বিশ্লেষণকে উপেক্ষা করা
     
    ## রাজনৈতিক সংগ্রামের ব্যক্তিগতকরণ
     
    লেখকের আরেকটি বিপজ্জনক কৌশল হল নারীর রাজনৈতিক সংগ্রামকে অত্যধিক ব্যক্তিগতকরণ। তিনি বারবার জোর দিয়েছেন যে মুক্ত স্তন আন্দোলন তার জন্য "রাজনৈতিক এবং ব্যক্তিগত উভয়ই"। কিন্তু এই ধরনের ব্যক্তিগতকরণ আসলে সম্মিলিত রাজনৈতিক সংগ্রামকে দুর্বল করে।
     
    নারীবাদী চিন্তাবিদ ক্যারল হ্যানিশ বহু আগেই উল্লেখ করেছিলেন যে "ব্যক্তিগত হল রাজনৈতিক", কিন্তু এর অর্থ এই নয় যে আমরা রাজনৈতিককে শুধুমাত্র ব্যক্তিগত অনুভূতিতে নামিয়ে আনব। বরং এর অর্থ হল ব্যক্তিগত অভিজ্ঞতার রাজনৈতিক মাত্রা উপলব্ধি করা।
     
    লেখক যখন লিখেন: "আমি অনুভব করলাম যে আমার শরীর শুধুমাত্র একটি রাজনৈতিক যন্ত্র নয়, বরং আমার শক্তির উৎসও", তখন তিনি আসলে স্তন-মুক্তি আন্দোলনের সামূহিক রাজনৈতিক চরিত্রকে ব্যক্তিগত শক্তির ধারণায় নামিয়ে আনছেন, যা সত্যিকারের পিতৃতান্ত্রিক কাঠামোকে চ্যালেঞ্জ করে না।
     
    ## নিওলিবারেল নারীবাদের ফাঁদ
     
    প্রবন্ধটি নিওলিবারেল নারীবাদের সমস্ত বৈশিষ্ট্য প্রদর্শন করে, যেখানে ব্যক্তিগত পছন্দ এবং ব্যক্তিগত ক্ষমতায়নকে কাঠামোগত অসমতার বিরুদ্ধে সামূহিক সংগ্রামের ঊর্ধ্বে স্থাপন করা হয়। লেখকের নিম্নলিখিত উক্তিতে এটি স্পষ্ট:
     
    "আমার বিশ্বাস যে আমাদের আন্দোলনের শক্তি এর যৌনতাতেও রয়েছে। যখন আমরা আমাদের শরীর প্রদর্শন করি, তখন আমরা শুধু আইনি অধিকারের জন্য আওয়াজ তুলি না, বরং আমাদের প্রদর্শনমূলক ইচ্ছাও পূরণ করি।"
     
    এটি আসলে একটি বিপজ্জনক অবস্থান, কারণ:
     
    ১. এটি পিতৃতান্ত্রিক পুঁজিবাদী সমাজে নারীর শরীরের পণ্যায়নকে স্বীকৃতি দেয়।
    ২. এটি "ব্যক্তিগত পছন্দ" এবং "ব্যক্তিগত ক্ষমতায়ন" এর নামে সাংস্কৃতিক ও সামাজিক কাঠামোগত সমস্যাকে এড়িয়ে যায়।
    ৩. এটি সামূহিক রাজনৈতিক সংগ্রামকে ব্যক্তিগত যৌন তৃপ্তির স্তরে নামিয়ে আনে।
     
    ## আলোচনার অনুপস্থিতি: শ্রেণি, জাতি, ও সাম্রাজ্যবাদ 
     
    প্রবন্ধটি নারীবাদী আন্দোলনের সবচেয়ে গুরুত্বপূর্ণ দিকগুলি সম্পর্কে চমকপ্রদভাবে নীরব:
     
    ১. **শ্রেণি বিশ্লেষণের অভাব**: প্রবন্ধে শ্রেণি সংগ্রামের কোনো উল্লেখ নেই, যা প্রমাণ করে এটি মধ্যবিত্ত, সুবিধাপ্রাপ্ত নারীদের অভিজ্ঞতাকে কেন্দ্র করে লেখা হয়েছে। অনেক নারীর কাছে শরীরের প্রদর্শন সামাজিক বা অর্থনৈতিক বিপদে পড়ার সমান, কিন্তু লেখক এই দিকটি সম্পূর্ণ উপেক্ষা করেছেন।
     
    ২. **জাতিগত বিশ্লেষণের অভাব**: লেখক জাতি এবং বর্ণবাদের প্রশ্ন সম্পূর্ণরূপে এড়িয়ে গেছেন, যেন সমস্ত নারী একই সামাজিক অবস্থানে রয়েছেন। অশ্বেতাঙ্গ নারীদের শরীর ঐতিহাসিকভাবে যেভাবে যৌনায়িত হয়েছে তার সাথে শ্বেতাঙ্গ নারীদের অভিজ্ঞতার পার্থক্য সম্পর্কে কোনো আলোচনা নেই।
     
    ৩. **সাম্রাজ্যবাদী দৃষ্টিভঙ্গি**: প্রবন্ধটি সম্পূর্ণরূপে পশ্চিমা দৃষ্টিভঙ্গি থেকে লেখা হয়েছে। লেখক যখন "টরন্টো" এবং "মন্ট্রিলে" আন্দোলনের কথা উল্লেখ করেন, তখন তিনি উত্তর আমেরিকান অভিজ্ঞতাকে সার্বজনীন হিসেবে উপস্থাপন করছেন, বিশ্বের অন্যান্য অংশের নারীদের অভিজ্ঞতা উপেক্ষা করছেন।
     
    ## নারীর শরীরকে যৌন বস্তুতে পরিণত করার পিতৃতান্ত্রিক মনোভাব
     
    সবচেয়ে উদ্বেগজনক বিষয় হল প্রবন্ধটি নারীর শরীরকে যৌন বস্তু হিসেবে পিতৃতান্ত্রিক দৃষ্টিভঙ্গিকে পুনরুৎপাদন করছে। লেখক যখন লিখেন:
     
    "আমি মন্ট্রিলে প্রতিবাদ করছিলাম। আবহাওয়া গরম ছিল, আকাশ পরিষ্কার ছিল, এবং আমি আমার ব্রা খুলে ফেললাম। হঠাৎ, শত শত ফোন ক্যামেরা আমার দিকে ঘুরে গেল। সেই মুহূর্তে, আমি অনুভব করলাম যে আমার শরীর শুধু একটি রাজনৈতিক যন্ত্র নয়, বরং আমার শক্তির উৎসও।"
     
    এই বর্ণনা মূলত পিতৃতান্ত্রিক দৃষ্টিকোণকে আত্মসাৎ করেছে। লক্ষ করুন:
     
    ১. নারীর শরীরকে "দেখা" হচ্ছে - এটি পুরুষালী দৃষ্টি (male gaze) কে স্বাভাবিক করে তোলে।
    ২. এটি দর্শকদের (যাদের মধ্যে অধিকাংশই সম্ভবত পুরুষ) দৃষ্টির মাধ্যমে "ক্ষমতা" অনুভব করাকে উদযাপন করে।
    ৩. এটি রাজনৈতিক সংগ্রামকে অন্যের (বিশেষত পুরুষের) দৃষ্টির জন্য একটি "প্রদর্শনীতে" পরিণত করে।
     
    নারীবাদী চিন্তাবিদ লরা মুলভে (Laura Mulvey) তার বিখ্যাত "Visual Pleasure and Narrative Cinema" প্রবন্ধে দেখিয়েছেন যে কীভাবে পুরুষালী দৃষ্টি (male gaze) নারীকে দেখার বিষয়বস্তুতে পরিণত করে, যেখানে নারী সক্রিয় কর্তা না হয়ে পুরুষের নজরের বিষয়বস্তু হয়ে ওঠে। লেখক নিজেই এই পিতৃতান্ত্রিক কাঠামোকে আত্মসাৎ করেছেন এবং এটিকে "ক্ষমতায়ন" হিসেবে পুনঃসংজ্ঞায়িত করার চেষ্টা করছেন।
     
    ## অডরি লর্ডের ভুল ব্যাখ্যা 
     
    প্রবন্ধকার অডরি লর্ডের (Audre Lorde) উদ্ধৃতি ব্যবহার করেছেন: "শ্রবণোত্তেজক আমাদের শক্তির গভীর উৎস"। কিন্তু তিনি লর্ডের এই ধারণাকে সম্পূর্ণরূপে বিকৃত করেছেন। অডরি লর্ড যখন "শ্রবণোত্তেজক" (erotic) এর কথা বলেন, তখন তিনি পুরুষতান্ত্রিক যৌন দৃষ্টির বিষয় হওয়ার কথা বলেননি, বরং তিনি বলেছিলেন আন্তরিক শক্তি ও সৃজনশীলতার একটি গভীর উৎস সম্পর্কে। লর্ড লিখেছিলেন:
     
    "পিতৃতন্ত্র যে কাঠামোতে আমাদের জীবনযাপন করতে শেখায়, সেখানে মানবীয় শ্রবণোত্তেজক শক্তির যেসব ক্ষেত্র মহিলাদের জন্য উন্মুক্ত, সেগুলোকে সীমিত করে রাখা হয় শুধুমাত্র যৌনতায়।"
     
    লর্ড আসলে যৌনতা এবং শ্রবণোত্তেজক অনুভূতির জটিল প্রকৃতি সম্পর্কে যা বলতে চেয়েছিলেন, লেখক তাকে সরলীকৃত করে এমনভাবে উপস্থাপন করেছেন যেন লর্ড নারীদের শরীরকে পুরুষের জন্য প্রদর্শন করাকে সমর্থন করতেন, যা সম্পূর্ণ বিপরীত।
     
    ## নিষ্কর্ষ: নারীবাদী আন্দোলনের যৌনায়নের বিপদ
     
    উপসংহারে বলা যায়, সৈয়দা শাহীন নূরের এই প্রবন্ধটি নারীবাদী আন্দোলনকে যৌনায়নের মাধ্যমে দুর্বল করার একটি চমৎকার উদাহরণ। নারীর রাজনৈতিক সংগ্রামকে "প্রদর্শনী" হিসেবে পুনঃসংজ্ঞায়িত করে, লেখক আসলে পিতৃতান্ত্রিক কাঠামোর ভিতরেই নারীবাদকে আটকে রাখার চেষ্টা করছেন।
     
    সত্যিকারের নারীবাদী আন্দোলন শুধু ব্যক্তিগত পছন্দ ও "শক্তির অনুভূতি" নিয়ে নয়, বরং সামাজিক, অর্থনৈতিক ও রাজনৈতিক কাঠামোর আমূল পরিবর্তন নিয়ে। কোনো আন্দোলন যখন নারীর শরীরকে রাজনৈতিক সংগ্রামের সাথে যৌনায়িত করে, তখন তা আসলে পিতৃতন্ত্রের হাতেই অস্ত্র তুলে দেয়।
     
    নারীবাদী আন্দোলনের সত্যিকারের শক্তি রয়েছে এর সমষ্টিগত চেতনায়, শ্রেণি, জাতি, যৌন পরিচয় ও জেন্ডারের সীমানা পেরিয়ে সবার একত্রিত সংগ্রামে - ব্যক্তিগত যৌন অনুভূতির প্রদর্শনীতে নয়। নারীর শরীরকে রাজনৈতিক সংগ্রামের হাতিয়ার হিসেবে ব্যবহার করার সময় আমাদের অবশ্যই সতর্ক থাকতে হবে যে আমরা যেন পিতৃতান্ত্রিক দৃষ্টিকোণকে পুনরুৎপাদন না করি, বরং তাকে চ্যালেঞ্জ করি।
     
    সৈয়দা শাহীন নূরের এই প্রবন্ধ চূড়ান্তভাবে নারীবাদী আন্দোলনকে তার রাজনৈতিক শক্তি থেকে বিচ্ছিন্ন করে যৌন প্রদর্শনীতে পরিণত করার একটি সূক্ষ্ম প্রচেষ্টা। এই ধরনের ভাবনা থেকে আমাদের সতর্ক থাকতে হবে, কারণ এগুলি পিতৃতান্ত্রিক কাঠামোকে ভাঙার পরিবর্তে তাকে আরও শক্তিশালী করে তোলে।
  • মতামত দিন
  • বিষয়বস্তু*:
  • কি, কেন, ইত্যাদি
  • বাজার অর্থনীতির ধরাবাঁধা খাদ্য-খাদক সম্পর্কের বাইরে বেরিয়ে এসে এমন এক আস্তানা বানাব আমরা, যেখানে ক্রমশ: মুছে যাবে লেখক ও পাঠকের বিস্তীর্ণ ব্যবধান। পাঠকই লেখক হবে, মিডিয়ার জগতে থাকবেনা কোন ব্যকরণশিক্ষক, ক্লাসরুমে থাকবেনা মিডিয়ার মাস্টারমশাইয়ের জন্য কোন বিশেষ প্ল্যাটফর্ম। এসব আদৌ হবে কিনা, গুরুচণ্ডালি টিকবে কিনা, সে পরের কথা, কিন্তু দু পা ফেলে দেখতে দোষ কী? ... আরও ...
  • আমাদের কথা
  • আপনি কি কম্পিউটার স্যাভি? সারাদিন মেশিনের সামনে বসে থেকে আপনার ঘাড়ে পিঠে কি স্পন্ডেলাইটিস আর চোখে পুরু অ্যান্টিগ্লেয়ার হাইপাওয়ার চশমা? এন্টার মেরে মেরে ডান হাতের কড়ি আঙুলে কি কড়া পড়ে গেছে? আপনি কি অন্তর্জালের গোলকধাঁধায় পথ হারাইয়াছেন? সাইট থেকে সাইটান্তরে বাঁদরলাফ দিয়ে দিয়ে আপনি কি ক্লান্ত? বিরাট অঙ্কের টেলিফোন বিল কি জীবন থেকে সব সুখ কেড়ে নিচ্ছে? আপনার দুশ্‌চিন্তার দিন শেষ হল। ... আরও ...
  • বুলবুলভাজা
  • এ হল ক্ষমতাহীনের মিডিয়া। গাঁয়ে মানেনা আপনি মোড়ল যখন নিজের ঢাক নিজে পেটায়, তখন তাকেই বলে হরিদাস পালের বুলবুলভাজা। পড়তে থাকুন রোজরোজ। দু-পয়সা দিতে পারেন আপনিও, কারণ ক্ষমতাহীন মানেই অক্ষম নয়। বুলবুলভাজায় বাছাই করা সম্পাদিত লেখা প্রকাশিত হয়। এখানে লেখা দিতে হলে লেখাটি ইমেইল করুন, বা, গুরুচন্ডা৯ ব্লগ (হরিদাস পাল) বা অন্য কোথাও লেখা থাকলে সেই ওয়েব ঠিকানা পাঠান (ইমেইল ঠিকানা পাতার নীচে আছে), অনুমোদিত এবং সম্পাদিত হলে লেখা এখানে প্রকাশিত হবে। ... আরও ...
  • হরিদাস পালেরা
  • এটি একটি খোলা পাতা, যাকে আমরা ব্লগ বলে থাকি। গুরুচন্ডালির সম্পাদকমন্ডলীর হস্তক্ষেপ ছাড়াই, স্বীকৃত ব্যবহারকারীরা এখানে নিজের লেখা লিখতে পারেন। সেটি গুরুচন্ডালি সাইটে দেখা যাবে। খুলে ফেলুন আপনার নিজের বাংলা ব্লগ, হয়ে উঠুন একমেবাদ্বিতীয়ম হরিদাস পাল, এ সুযোগ পাবেন না আর, দেখে যান নিজের চোখে...... আরও ...
  • টইপত্তর
  • নতুন কোনো বই পড়ছেন? সদ্য দেখা কোনো সিনেমা নিয়ে আলোচনার জায়গা খুঁজছেন? নতুন কোনো অ্যালবাম কানে লেগে আছে এখনও? সবাইকে জানান। এখনই। ভালো লাগলে হাত খুলে প্রশংসা করুন। খারাপ লাগলে চুটিয়ে গাল দিন। জ্ঞানের কথা বলার হলে গুরুগম্ভীর প্রবন্ধ ফাঁদুন। হাসুন কাঁদুন তক্কো করুন। স্রেফ এই কারণেই এই সাইটে আছে আমাদের বিভাগ টইপত্তর। ... আরও ...
  • ভাটিয়া৯
  • যে যা খুশি লিখবেন৷ লিখবেন এবং পোস্ট করবেন৷ তৎক্ষণাৎ তা উঠে যাবে এই পাতায়৷ এখানে এডিটিং এর রক্তচক্ষু নেই, সেন্সরশিপের ঝামেলা নেই৷ এখানে কোনো ভান নেই, সাজিয়ে গুছিয়ে লেখা তৈরি করার কোনো ঝকমারি নেই৷ সাজানো বাগান নয়, আসুন তৈরি করি ফুল ফল ও বুনো আগাছায় ভরে থাকা এক নিজস্ব চারণভূমি৷ আসুন, গড়ে তুলি এক আড়ালহীন কমিউনিটি ... আরও ...
গুরুচণ্ডা৯-র সম্পাদিত বিভাগের যে কোনো লেখা অথবা লেখার অংশবিশেষ অন্যত্র প্রকাশ করার আগে গুরুচণ্ডা৯-র লিখিত অনুমতি নেওয়া আবশ্যক। অসম্পাদিত বিভাগের লেখা প্রকাশের সময় গুরুতে প্রকাশের উল্লেখ আমরা পারস্পরিক সৌজন্যের প্রকাশ হিসেবে অনুরোধ করি। যোগাযোগ করুন, লেখা পাঠান এই ঠিকানায় : guruchandali@gmail.com ।


মে ১৩, ২০১৪ থেকে সাইটটি বার পঠিত
পড়েই ক্ষান্ত দেবেন না। দ্বিধা না করে মতামত দিন